غیبت کیاکیسے اور جواز کی صورتیں

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ غیبت کیا ہے؟ کن صورتوں میں جائز ہے؟ اور اگر کوئی کہے کہ آج کل تو ہر کوئی غیبت کرتا نظرآتا ہے، میں اکیلا تھوڑی غیبت کررہا ہوں؟ تو اسے کیا جواب دیا جائے؟

633 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    غیبت کہتے ہیں آدمی کا کسی کے پیٹھ پیچھے تذکرہ ایسے الفاظ میں کرنا جن کو وہ ناپسند کرتا ہو، خواہ برائی کا تذکرہ اس کے بدن سے متعلق ہو یا نسب سے، اوصاف سے متعلق ہو یا قول و فعل سے، یا دین سے یا دنیاوی معاملات سے، اگرچہ یہ تذکرہ اس کے لباس سے یا اس کے گھریا سواری سے متعلق ہی کیوں نہ ہو۔جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔

    حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ وَقُتَيْبَةُ وَابْنُ حُجْرٍ قَالُوا حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ عَنْ الْعَلَاءِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَتَدْرُونَ مَا الْغِيبَةُ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ قِيلَ أَفَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِي أَخِي مَا أَقُولُ قَالَ إِنْ كَانَ فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَدْ اغْتَبْتَهُ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ فَقَدْ بَهَتَّهُ۔(مسلم:6593)
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے؟ انہوں (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) خوب جاننے والے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)نے فرمایا: اپنے بھائی کا اس طرح تذکرہ کرنا جو اسے ناپسند ہو۔عرض کی گئی: آپ یہ دیکھئے کہ اگر میرے بھائی میں وہ بات واقعی موجود ہو جو میں کہتا ہوں (تو؟) آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: جو کچھ تم کہتے ہو، اگر اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی، اگر اس میں وہ (عیب) موجود نہیں تو تم نے اس پر بہتان لگایا ہے۔

    حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کے خلاف اس کے پیچھے جھوٹا الزام لگانا بہتان ہے اور اس کے واقعی عیوب بیان کرنا غیبت۔ باقی غیبت خواہ صریح الفاظ میں کی جائے یا اشارہ و کنایہ میں، بہر صورت حرام ہے۔اور اس کو کرنے کا سبب کوئی بھی ہو، چاہے غصہ کے ازالہ کے لئے، یا ساتھیوں کا دل جیتنے کے لئے، یا گفتگو میں ان کی مدد کے لئے ہو، یا کلام میں تصنع پیدا کرنے کے لئے ہو، یا حسد کی وجہ سے ہو، یا کھیل کود اور ہنسی مذاق کے طور پر ہو، یا وقت گزاری کے لئے ہو، چنانچہ دوسرے کے عیوب کا ذکر اس طرح کیا جائے کہ دوسرے لوگ ہنسیں، یہ سب غیبت ہے، اللہ رب العالمین نے اس سے اپنے بندوں کو روکا، اور متنبہ کیا ہے کہ

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ۔(سورۃ الحجرات:12)
    اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیاں گناه ہیں۔ اور بھید نہ ٹٹولا کرو اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مرده بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والامہربان ہے۔

    غیبت کا جواز

    غیبت کے جواز میں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ غیبت کیا ہے؟ اور کیا نہیں ہے؟۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

    لَّا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا ۔ إِن تُبْدُوا خَيْرًا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُوا عَن سُوءٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرًا ۔(سورۃ النساء:148، 149)
    اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی برائی کرنے کے لیے زبان کھولے سوائے اس کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو (اور وہ اس ظلم کو بیان کرے)، اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ (مظلوم ہونے کی صورت میں گرچہ تم کو بدلہ لینے کا حق ہے)، لیکن اگر تم ظاہر و باطن میں بھلائی ہی کیے جاؤ یا کم از کم برائی سے درگزر کرو تو اللہ (کی صفت بھی یہی ہے کہ وہ) بڑا معاف کرنے والا ہے، (حالانکہ وہ سزا دینے پر )پوری قدرت رکھتا ہے۔

    اسی طرح ایک حدیث بھی اس معاملے کو کھول کر بیان کرتی ہے:

    قَالَتْ (فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ): فَلَمَّا حَلَلْتُ ذَكَرْتُ لَهُ أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ، وَأَبَا جَهْمٍ خَطَبَانِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا أَبُو جَهْمٍ، فَلَا يَضَعُ عَصَاهُ عَنْ عَاتِقِهِ، وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوكٌ لَا مَالَ لَهُ، انْكِحِي أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ۔(مسلم:3697)
    جب میں (فاطمہ بنت قیس) (عدت سے) فارغ ہوئی، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبتایا کہ معاویہ بن ابی سفیان اور ابوجہم رضی اللہ عنہم دونوں نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ابوجہم تو اپنے کندھے سے لاٹھی نہیں اتارتا، اور رہا معاویہ تو وہ انتہائی فقیر ہے، اس کے پاس کوئی مال نہیں، تم اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لو۔

    قرآن کی آیت اور حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کچھ موقعوں پر برائی کرنا غیبت نہیں ہوتا اور کچھ مواقع پر یہ غیبت شمار ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ غیبت کا اطلاق کن باتوں پر ہوتا ہے؟ اور کن پر نہیں۔ بہت سے ایسے مواقع ہیں جو بظاہر غیبت سے ملتے جلتے ہیں لیکن چونکہ ان کا مقصد تحقیر و تذلیل نہیں بلکہ کچھ اور ہوتا ہے اس لئے یہ غیبت نہیں کہلاتے۔ وہ مواقع جن میں کسی کی برائی بیان کرنا غیبت نہیں بلکہ جائز ہے یہ ہیں:

    1۔ مظلوم کا ظالم کے خلاف آواز اٹھانا جیسے کسی لٹنے والے شخص کا تھانے یاعدالت میں جاکر ڈاکو کی برائی بیان کرنا۔
    2۔ ایسے فاسق و فاجر اور گناہ کرنے والے کے خلاف بات کرنا جو اعلانیہ فسق و فجور کے کام کرتا ہو جیسے شرابی، عریاں فلمیں دکھانے والا، جوئے کا اڈا چلانے والا وغیرہ۔
    3۔ فتویٰ یا رہنمائی لینے کے لیے جیسے ہندہ نے اپنے شوہر کے خلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ ابو سفیان بخیل ہیں تو کیا وہ اپنے شوہر سے بلااجازت رقم لے سکتی ہیں۔
    4۔ حدیث کے راویوں یا عدالتی کاروائی کے دوران گواہی دینے یا جرح کرنے کے لیے۔
    5۔ تحقیقات میں رائے طلب کرنے کے لئے جیسے نکاح کے وقت مشورہ مانگنا یا ملازمت دیتے وقت پوچھ گچھ کرنا یا کسی خریدار کو خطرے سے بچانے کی کوشش کرنا ۔ جیساکہ حضرت فاطمہ بنت قیس نے رشتوں کے سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ معاویہ تو مفلس ہیں اور ابوالجہم تشدد کرنے والے آدمی ہیں۔
    6۔ کسی شخص کو اس کے مشہور نام سے پکارنا جو کہ عیب دار نام ہو جیسے ابوجہل
    7۔ اصلاح کی نیت سے برائی بیان کرنا خاص طور پر جب انسان خود کچھ کرنے کی ہمت نہ پارہا ہو تو زیادہ بااثر لوگوں تک بات پہنچانے کی غرض سے کسی کی بری بات بیان کرنا، جیسے بچہ نماز نہ پڑھے تو ماں بچے کے باپ کو اس بات سے مطلع کرتی ہے۔
    8۔ کسی پبلک فیگر کے شعبے سے متعلق برائی بیان کرناجیسے سیاستدان وغیرہ جنہوں نے اپنے آپ کو قومی خدمت کے لیے پیش کردیا ہے۔ایسے لوگوں کی مسلمہ برائیاں بیان کی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی فن کار ہے تو اس کے فن پر گفتگو کرتے وقت اس کی برائی کی جاسکتی ہے جیسے یہ کہنا کہ شاہد آفریدی اچھا بیٹسمین نہیں ہے، یا فلاں فنکارہ کا لباس غیر شائستہ ہے وغیرہ۔لیکن کسی عوامی شخصیت کی برائی بیان کرنے کا دائرہ کار اس شخصیت کے پیشے یا فیلڈ سے ہونا چاہئے مثال کے طور پر شاہد آفریدی کے بارے کرکٹ کے حوالے سے تو کوئی رائے دی جاسکتی ہے لیکن اس کی فیملی لائف کو ڈسکس کرنا غیبت میں آسکتا ہے۔
    9۔ ایک عالم کے دوسرے عالم کے کام پر علمی تنقید کرنا کیونکہ اس کا محرک بھی تحقیر نہیں ۔ اور اگر مقصد تذلیل ہے تو غیبت ہے۔
    10۔ کوئی معلومات فراہم کرنا جیسے ایک نیوز کاسٹر ایک خبر بیان کرتی ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی پر تشدد کیا تو یہ غیبت نہیں کیونکہ اس کا مقصد اطلاع دینا ہے۔ اسی طرح کوئی عورت اپنے شوہر کو دن بھر کی روداد سنا ئے کہ اس کی ساس اور نندوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا تو یہ تو غیبت نہیں بشرطیکہ عورت کا مقصد صرف واقعہ بیان کرنا ہے اور تحقیر و تذلیل مقصود نہیں۔ اسی طرح کسی واقعے کی خبر دینا کہ فلاں کے ساتھ یہ ہوگیا ہے،غیبت نہیں ۔

    باقی اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ آج کل تو ہر کوئی غیبت کرتا نظر آتا ہے، میں اکیلا تھوڑی کرنے والا ہوں، تو اسے سمجھایا جائے کہ گناہ گناہ ہی ہوتا ہے، چاہے اسے ایک آدمی کرے، یا پھر زیادہ لوگ۔کوئی بھی گناہ زیادہ لوگوں کے کرنے سے جائز نہیں ہوجاتا۔یا پھر زیادہ لوگوں کے کرنے کی وجہ سے اس گناہ کو کرنا شروع نہیں ہوا جاتا۔اور اگر اتنی بات سے بھی وہ نہ سمجھے، تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے

    وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا ۔(سورۃ الفرقان:63)
    اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وه کہہ دیتے ہیں کہ سلام (السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ)ہے۔

    ایسے آدمی کو اپنے حال پر چھوڑا جائے، اور پھر کوئی اچھا اور مناسب موقع دیکھ کر پھر اصلاح کی جائے۔ ان شاءاللہ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت دے دے گا۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں