مسجد الحرام میں بیس رکعات تراویح کیوں

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ جب تراویح آٹھ رکعات سنت ہے، تو پھر حرم میں بیس رکعات کیوں پڑھی جاتی ہیں؟

599 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! سب سے پہلے تو ہمیں یہ اصول سامنے رکھنا چاہیے کہ دین قرآن وحدیث کا نام ہے، کسی شخصیت یا جگہ کے عمل کا نام نہیں۔ اور ہم سے سوال بھی اسی پر ہوگا، کہ دین پر کتنا علم کیا۔ لہٰذا اس سوچ کو سامنے رکھ کر دینی احکامات پرعمل کرنا چاہیے۔

    جہاں تک حرم میں بیس رکعات تراویح کی بات ہے تو صرف حرم میں بیس رکعات تراویح پڑھی جاتی ہے، اس کے علاوہ مکہ کی کسی مسجد میں بھی (شاذ ونادر) بیس رکعات تراویح نہیں ہوتی۔ اگر بیس رکعات تراویح ہی سنت ہوتی، اور سعودی حکومت بیس رکعات کو ہی سنت سمجھتی ہوتی، تو پھر پورے سعودیہ میں یہ نافذ العمل بھی ہوتی، لیکن ایسا نہیں ہے۔ تو پھر حرم میں بیس کیوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب شاہ عبدالعزیز نے سعودیہ میں سنت کا نفاذ کرانا چاہا، تو اس وقت کے علماء سے اس مسئلہ پر مشورہ کیا، چونکہ وہاں پراکثرعلماء حنبلی المسلک ہیں اور حنبلی مسلک والے مالکی، شافعی اور حنفی مسلک والوں کی طرح متعصب نہیں ہوتے۔ توعلماء حنابلہ نے مشورہ دیا کہ چونکہ حرم عالم اسلام کی توجہ کا مرکز ہے، یہاں پر آنے والے کچھ آٹھ کے قائل تو کچھ بیس کے قائل ہوتے ہیں۔ اور پھر تراویح کی رکعات میں کوئی سختی بھی نہیں کہ لازمی آٹھ پڑھیں یا لازمی بیس۔ اور نہ ہی کوئی لمٹ ہے۔ کیونکہ نفل نماز ہے، ہر کسی کی طاقت پر ہے کہ وہ کتنی پڑھنا چاہتا ہے؟ لہٰذا ایسا کریں کہ دو امام مقررکریں، ایک امام آٹھ رکعات تراویح اور دو رکعت مزید پڑھائے، اور جس مقتدی نے آٹھ رکعات تراویح اورتین وترپڑھنے ہوں، وہ مزید ایک رکعت وترپڑھ کر چلا جائے۔ اس کے بعد دوسرا امام بھی اسی طرح کرے۔ اسی وجہ سے حرم میں بیس رکعات تراویح پڑھائی جاتی ہے۔ باقی اس کے علاوہ مکہ اور پھر سعودی عرب میں کہیں بھی (شاذ ونادر) بیس رکعات تراویح نہیں پڑھائی جاتی۔

    اب یہاں پرکچھ اہم باتیں سمجھنے کی ضرورت ہے

    1۔ نماز تراویح آٹھ سنت ہیں یا بیس رکعات؟
    2۔ سعودی علماء کتنی رکعات کو سنت کہتے ہیں؟

    پہلی بات: بادلائل صریحہ وصحیحہ یہ بات ثابت ہے کہ تراویح آٹھ رکعات سنت ہے۔ کسی بھی صحیح دلیل سے یہ ثابت نہیں کہ تراویح بیس رکعات سنت ہے۔ جو لوگ بیس رکعات تراویح کو سنت کہتے ہیں، ان کی یہ بات بادلائل صحیحہ درست نہیں۔ تفصیلات کےلیے کتب کی طرف رجوع کیا جائے۔
    دوسری بات: جہاں تک یہ بات ہے کہ تراویح کے بارے میں سعودی عرب کے جید علما کا موقف کیا ہے؟ تو شیخ ابن باز رحمہ اللہ، شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ اور فتویٰ کونسل سعودی عرب ان سب کا یہی مؤقف ہے کہ

    صلاة التراویح سنة سَنَّھا رسول اﷲ صلي الله عليه وسلم، وقد دلَّت الأدلة علی أنه صلي الله عليه وسلم ما کان یزید في رمضان ولا في غیرہ علی إحدی عشرة رکعة
    نماز تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے،اور دلائل یہ بتاتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور اس کے علاوہ پورے سال میں گیارہ رکعات (8+3)سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔

    نوٹ:
    نماز تراویح کی رکعات پرسختی نہیں کرنی چاہیے، لوگوں کی اپنی مرضی اور ان کی طاقت پر چھوڑ دینا چاہیے۔ ہاں اس معاملے میں جو سنت رکعات کا اعتقاد رکھا جائے، وہ صرف آٹھ رکعات کے سنت ہونے پر۔ باقی ہم بھی جو لوگ بیس رکعات پڑھتے ہیں ان کو برا بھلا نہیں کہتے بلکہ ہمارا اصل اختلاف اس بات پر ہوتا ہے کہ سنت کا اعتقاد ہم کتنی رکعات پر رکھیں آٹھ پر؟ یا بیس پر؟

    خلاصہ کلام
    خلاصہ کلام یہ کہ نماز تراویح آٹھ رکعات سنت ہیں، اس سے زیادہ سنت کا اعتقاد رکھنا درست نہیں۔ باقی جو جتنی مرضی رکعات پڑھے، کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ کیونکہ نفل عبادت ہے۔ باقی جو لوگ حرم کی بیس رکعات دکھا کر اسی کو سنت کہتے ہیں، اور آٹھ رکعات پڑھنے والوں کو حرم کے خلاف عمل کرتے ہوئے خلاف سنت عمل کرنے کا الزام دیتے ہیں۔ تو کیا یہ لوگ بیس رکعات اسی طرح پڑھتے ہیں جیسے حرم میں پڑھی جاتی ہے؟ یا پھر جو حرم میں اس کے علاوہ اعمال کیے جاتے ہیں مثال کے طور پر

    1۔ مکہ میں رکوع سے پہلے اور بعد میں رفع الیدین کیا جاتا ہے۔
    2۔ مکہ میں آذان سے قبل و بعد مروجّہ درود نہیں پڑھا جاتا۔
    3۔ مکہ میں تکبیرا کہری کہی جاتی ہے ۔
    4۔ مکہ میں ہر نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں کی جاتی۔
    5۔ مکہ میں نمازیں اوّل وقت میں ادا کی جاتی ہیں۔
    6۔ مکہ میں خانہ کعبہ میں نماز جنازہ پڑھے جاتے ہیں جبکہ بیس پڑھنے والے اس کے منکر ہیں۔
    7۔ مکہ والے ایک رکعت وتر کے قائل ہیں جبکہ یہ لوگ اس کے منکر ہیں۔
    8۔ مکہ میں عورتوں کو مساجد میں آنے کی اجازت ہے جبکہ یہ لوگ اپنی عورتوں کو اس سے منع کرتے ہیں۔
    9۔ مکہ میں نماز عید میں کل بارہ تکبیرات کہی جاتی ہیں لیکن مکہ کی بیس رکعت کو دلیل بنانے والے نمازعید میں صرف چھ تکبیرات پڑھتے ہیں۔
    10۔ مکہ میں عیدین میں مرد وعورت جماعت کے ساتھ عیدین پڑھتے ہیں لیکن یہ لوگ عورتوں کو جماعت میں حاضر ہونے کی جازت نہیں دیتے۔

    اسی طرح یہ لوگ بس بیس رکعات کی تعداد لے کر شور تو مچاتے ہیں، لیکن کیا ان کو یہ نظر نہیں آتا کہ

    1۔ مکہ مین تراویح کے ساتھ تہجد الگ سے نہیں پڑھی جاتی جبکہ ان کے نزدیک تراویح اور تہجد الگ الگ پڑھنی چاہیئے۔
    2۔ مکہ کی بیس تراویح میں پاؤں سے پاؤں اور کندھے سے کندھا ملا کر مقتدی کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کی صفوں کی حالت ہم سب جانتے ہیں۔
    3۔ مکہ کی بیس تراویح میں امام ہاتھ سینے پر یا کم از کم ناف سے اوپر باندھتے ہیں ناف کے نیچے نہیں۔
    4۔ مکہ کی بیس تراویح میں امام کے پیچھے فاتحہ پڑھی جاتی ہے جبکہ یہ لوگ اس کے منکر ہیں۔
    5۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں امام اور مقتدی دونوں بلند آواز سے آمین کہتے ہیں۔
    6۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں رفع الیدین کیا جاتا ہے۔
    7۔ مکہ کی بیس رکعت تراویح میں وتر فصل کر کے پڑھا جاتا ہے یعنی دو رکعت پڑھ کر امام سلام پھیر دیتا ہے اس کے بعد ایک وتر الگ سے پڑھا جاتا ہے ، جبکہ یہ اس کے منکر ہیں۔
    8۔ مکہ کی بیس رکعات تراویح میں قرآن کس طرح پڑھا جاتا ہے؟ اور ان کی بیس رکعات تراویح میں کس طرح؟ کون واقف نہیں

    لہٰذا مسائل شرعیہ کے اثبات اور ان کو حجت منوانے کےلیے یہ اندازبالکل درست نہیں، کہ فلاں جگہ یہ عمل ہوتا ہے، تو لہٰذا بس یہی ہی درست ہے۔

    اس لیے یہ جان لیا جائے کہ تراویح کی سنت رکعات صرف آٹھ ہی ہیں، اس کے علاوہ سنت رکعات کا اعتقاد رکھنا درست نہیں۔ باقی چونکہ نفل نماز ہے، اس لیے جو جتنی مرضی پڑھے، کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں