حالت اعتکاف اور جائز وناجائز کام

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے اعتکاف کی حالت میں جائز اور ناجائز کام کیا کیا ہیں؟

370 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! دوران اعتکاف یہ کام ممنوع ہیں

    1۔ جماع و ہم بستری کرنا ۔
    2۔ بیمار پرسی کےلیے باہر نکلنا۔
    3۔ کسی جنازے میں شریک ہونا۔
    4۔ کسی ضروری حاجت کے بغیر باہر نکلنا۔

    اور دوران اعتکاف یہ کام جائز ہیں

    1۔ کسی ضروری حاجت کےلیے انسان مسجد سے نکل سکتا ہے۔
    2۔ مسجد میں خیمہ لگانا۔
    3۔ اعتکاف کرنے والے کی بیوی اس سے ملاقات کےلیے مسجد میں آسکتی ہے اور وہ بیوی کو محرم ساتھ نہ ہونے کی صورت میں گھر چھوڑنے بھی جا سکتا ہے۔
    4۔ استحاضہ کی بیماری میں مبتلا عورت اعتکاف کر سکتی ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

    اعتکاف کی شرعی حیثیت

    الحمد اللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ اما بعد:
    لغوی اعتبار سے اعتکاف کا معنی کسی چیز پر جم کر بیٹھ جانا اور نفس کو اس کے ساتھ لگائے رکھنا ہے اور شرعی اعتبار سے تمام دنیوی معاملات ترک کر کے عبادات کی نیت سے اللہ تعالی کو راضی کرنے کی خاطر مسجد میں ٹھرنے کا نام اعتکاف ہے۔ اعتکاف بیٹھنے والے کو “معتَکِف” اور جائے اعتکاف کو “معتَکَف” کہا جاتا ہے۔ اعتکاف سال میں کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شوال کا اعتکاف بھی ثابت ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں ہمیشہ اعتکاف بیٹھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے درمیانے عشرے کا بھی اعتکاف کیا ہے لیکن افضل آخری عشرے کا اعتکاف ہے۔ اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے کا اعتکاف کرتے تھے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی سے جا ملے۔

    سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
    “نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیا کرتے تھے حتیٰ کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فوت کر دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اعتکاف کرتی تھیں” (بخاری، ابواب الاعتکاف:2026)

    سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے درمیانے عشرے کا اعتکاف کیا کرتے تھے۔ ایک سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب معمول اعتکاف کیا، جب اکیسویں رات ہوئی، یہ وہ رات تھی جس کی صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اعتکاف سے نکلتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ آخری عشرے کا بھی اعتکاف بیٹھے” (بخاری، ابواب اعتکاف:2027)

    سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
    ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو فجر کی نماز پڑھ کر اپنی جائے اعتکاف میں داخل ہو جاتے” (ابن ماجہ، کتاب الصیام:1771، نسائی:710)

    اعتکاف کے طریقے کے متعلق اہل علم کے دو اقوال ہیں:
    1۔ ایک قول یہ ہے کہ اعتکاف مسنون آخری عشرے کا ہے اور آخری عشرے کا آغاز بیس رمضان کا سورج غروب ہوتے ہی ہو جاتا ہے لہذا معتکف کو چاہیے کہ وہ اکیسویں رات شروع ہوتے ہی مسجد میں آجائے، رات بھر تلاوت قرآن، ذکر الہی، تسبیح و تہلیل اور قیام میں مصروف رہے اور نماز فجر ادا کر کے اپنے اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو جائے۔
    2۔ دوسرا موقف یہ ہے کہ ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عشرے میں اعتکاف کیا اور دوسری حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر پڑھ کر اعتکاف کی جگہ داخل ہوتے تھے لیکن اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ وہ اکیس کی یا بیس کی صبح ہے۔ بہتر یہ ہے کہ معتکف بیس رمضان کی فجر پڑھ کر اعتکاف کا آغاز کرے تاکہ آخری عشرے کی اکیسویں کی طاق رات جائے اعتکاف میں گزارے ، کیونکہ اعتکاف لیلہ القدر کی تلاش کا ایک ذریعہ ہے جیسا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے واضح ہو جاتا ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ درمیانے عشرے کا اعتکاف کیا۔

    کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ اعتکاف کر کے اپنا بوریا بستر باندہ کر گھروں کو چلے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ آخری عشرے کا بھی اعتکاف کرے” یہ بیس رمضان کو فرمایا تھا۔ غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ آخری عشرے کی اکیسویں رات بعد از غروب آفتاب شروع ہوتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیسویں کے دن کا صحابہ رضی اللہ عنہم سے اعتکاف کروایا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں رات کو بھی بلا سکتے تھے اور کہہ دیتے کہ تم نے اعتکاف کے مقام پر داخل ہونا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بیس کی صبح کو مسجد میں آجائےتو ذہنی طور پر لیلتہ القدر کی تلاش کیلیے تیار ہو جائے گا اور جائے اعتکاف سے مانوس بھی ہو جائے گا۔ اسطرح اس کی اکیسویں رات معتکف میں گزرے گی۔ جب کہ دوسرے موقف کے لحاظ سے ان کی اکیسویں رات جائے اعتکاف سے باہر گزرے گی، جو ایک نقص بھی ہے لہذا زیادہ مناسب اور موزوں یہ ہے کہ بیسویں کی صبح کو مسجد میں آئے نماز ادا کرنے کے بعد اپنے معتکف میں تیار ہو کر بیٹھے۔ اس صورت میں دونوں احادیث پر عمل ہو جاے گا۔ صرف آخری عشرے سے بارہ گھنٹوں کا اضافہ ہو گا اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں (واللہ اعلم)

    دوسرا موقف مبنی بر احتیاط ہے وگرنہ اعتکاف تو ایک دن یا رات کا بھی ہو سکتا ہے۔

    جیسا کہ حدیث میں ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
    “سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک رات مسجد حرام میں اعتکاف کی نذر مانی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی نذر پوری کرو” (بخاری، ابواب اعتکاف، 2032)

    معلوم ہوا کہ اعتکاف ایک عشرے سے کم کا بھی ہو سکتا ہے۔

    دوران اعتکاف ممنوع افعال:

    1۔ جماع و ہم بستری کرنا (البقرہ:187، ابن ابی شیبہ:29/3)
    2۔ بیمار پرسی کیلیے باہر نکلنا
    3۔ کسی جنازے میں شریک ہونا
    4۔ کسی صروری حاجت کے بغیر باہر نکلنا
    (ابو داؤد، کتاب الصیام:2473، بیہقی:317/3)

    دوران اعتکاف چند جائز کام:
    1۔ کسی ضروری حاجت کیلیے انسان مسجد سے نکل سکتا ہے۔ (بخاری، ابواب اعتکاف:2035)
    2۔ مسجد میں خیمہ لگانا۔ (بخاری، ابواب الاعتکاف:2034)
    3۔ اعتکاف کرنے والے کی بیوی اس سے ملاقات کیلیے مسجد میں آسکتی ہے اور وہ بیوی کو محرم ساتھ نہ ہونے کی صورت میں گھر چھوڑنے بھی جا سکتا ہے۔ (بخاری، ابواب الاعتکاف:2035)
    4۔ استحاضہ کی بیماری میں مبتلا عورت اعتکاف کر سکتی ہے۔ (بخاری، ابواب الاعتکاف:2037)

    وصل اللهم وسلم وبارك على سيدنا ومولانا محمد وآله وصحبه أجمعين

ایک جواب چھوڑیں