اللہ تعالیٰ سے دعا میں اپنی حاجت کو طلب کرنے کا حکم

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے یقیناً ہمیں دعا پورے توکل کے ساتھ کرنی چاہیے، لیکن جب ہم کسی چیز کےلیے دعا کرتے ہیں اور وہ چیز ہمیں چاہیے ہوتی ہےلیکن اس کے باوجود ہم اسے اللہ تعالیٰ کی مرضی پہ چھوڑ دیتے ہیں تو ایسے عمل کو ہم کیا کہیں گے؟

403 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:
    بہن! لفظ دعا کے معانی پکارنے اور بلانے کے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ اپنی حاجت وضرورت کے لیے الله تعالیٰ کو پکارا جائے، تا کہ وہ اس ضرورت کو پورا کردے۔ کسی بھی جائز حاجت کی تکمیل کےلیے اللہ تعالیٰ سے مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔ باقی جو بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے، وہ پورے وثوق، اعتماد اور قبولیت کے یقین سے کی جائے، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

    ’’ تم میں سے کوئی شخص ہرگز یہ نہ کہے کہ یا اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے، اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم فرما بلکہ پورے عزم سے دعا کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کوئی مجبور نہیں کرسکتا۔” (بخاری:6339)

    ایسی دعا ’’معلق دعا‘‘ کہلاتی ہے، اور معلق دعا سے مراد وہ دعا ہوتی ہے جس میں دعا اس طرح کی جائے کہ اے اللہ اگر تو چاہتا ہے تو مجھے عطا کردے اور اگر چاہتا ہے تو بخش دے۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ یا اللہ اگر تو بخشنا نہیں چاہتا تو نہ بخشش ، اگر عطا نہیں کرنا چاہتا تو عطا نہ کر… تیری مرضی!۔ ایسی دعا سے منع کیا گیا ہے۔ اس لیے جب ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں تو پورے عزم اور یقین کے ساتھ دعا کریں۔ لیکن قبولیت کا نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں۔ کیونکہ مومن کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ وعلی ربہم یتوکلون (کہ وہ اپنے رب پر بھروسہ کرنے والے ہوتے ہیں)۔

    باقی کسی بھی دعا کی قبولیت کی تین صورتیں ہوتی ہیں

    1۔ یا تو اللہ تعالی مانگی ہوئی دعا کو بعینہ پورا کردیتے ہیں، اور جو چیز مانگی گئی ہوتی ہے وہ مل جاتی ہے۔
    2۔ یا اللہ تعالیٰ اس دعا کے بدلے میں کوئی مصیبت ٹال دیتے ہیں، جو اس انسان پر آنی ہوتی ہے۔ یا اس سے بہتر چیز عطا کردیتے ہیں۔
    3۔ یا پھر اللہ تعالیٰ اس دعا کو ذخیرہ آخرت بنا دیتے ہیں، دنیا میں کچھ نہیں دیتے۔

    لہٰذا جو بھی دعا کی جائے اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت کا عزم ویقین ہونا چاہیے، باقی کچھ لوگ خشوع وخضوع کے ساتھ دعا مانگتے ہیں، اور اللہ پر توکل بھی کرتے ہیں، لیکن وہ اپنی دعا میں جلد بازی دکھاتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

    ’’ بندے کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے جب تک بندہ جلدی نہ کرے اور اس کا جلدی کرنا یہ ہےکہ بندہ کہے میں دعا کرتا ہوں اور دعا قبول نہیں ہوتی‘‘۔ (مسلم)

    تو ایسے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوتی۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں