عصر و فجر کے بعد نوافل ادا کرنا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

فجر اور عصر کی نماز کے بعد کیا نوافل پڑھ سکتے ہین اور کیا فجر سے پہلے تہجد ادا کی جاسکتی ہے الگ سے نہ جاگیں ؟

341 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ نے اپنے فتاویٰ میں اس پرزور دیا ہے کہ سببی نماز جائز ہے جیسے تحیۃ المسجد،تحیۃ الوضوء وغیرہ اورممانعت صرف غیرسببی سے ہے یعنی جس کا کوئی سبب نہ ہو جیسے عام نفل ،نماز استخارہ اورنماز حاجت بھی سببی میں داخل ہے کیونکہ سببی سے مراد جوفی الفور ہوتی ہے
    عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا ےَتَحَرّٰی اَحَدُکُمْ فَےُصَلِّیْ عِنْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَلَا عِنْدَ غُرُوْبِھَا وَفِیْ رِوَاےَۃٍ قَالَ اِذَا طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَدَعُوا الصَّلٰوۃَ حَتّٰی تَبْرُزَ وَاِذَا غَابَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَدَعُوا الصَّلٰوۃَ حَتّٰی تَغِےْبَ وَلَا تَحَےَّنُوْا بِصَلٰوتِکُمْ طُلُوْعَ الشَّمْسِ وَلَا غُرُوْبَھَا فَاِنَّھَا تَطْلُعُ بَےْنَ قَرْنِیَ الشَّےْطَانِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
    ” حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی آدمی آفتاب کے نکلنے اور ڈوبنے کے وقت نماز پڑھنے کا قصد نہ کرے۔ ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب سورج کا کنارہ نکل آئے تو نماز چھوڑ دو یہاں تک کہ سورج خوب ظاہر ہو جائے یعنی (ایک نیزے کے بقدر بلند ہو جائے) نیز جب سورج کا کنارہ ڈوب جائے تو مطلقاً کوئی بھی نماز خواہ فرض ہو یا نفل چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ بالکل غروب ہو جائے اور آفتاب کے طلوع و غروب ہونے کے وقت نماز پڑھنے کا ارادہ نہ کرو اس لئے کہ سورج شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔” (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

    اصل چیز فجر کی اذان نہیں بلکہ اوقات نماز ہیں پس جب صبح صادق کا وقت ہوجائے جسے عرف عام میں سحری کا وقت ختم ہونا کہا جاتا ہے تو اس وقت نماز تہجد کا وقت بھی ختم ہو جاتا ہے اور صبح صادق یا سحری کے وقت سے پہلے پہلے نماز تہجد کا وقت ہوتا ہے۔
    لہذا آپ سحری سے 20 منٹ قبل جاگ جائے اور نماز تہجد پڑھ کے دعا و استغفار کیجئے پھر نماز فجر ادا کر لیجئے کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔
    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں