عورت کا کن سے پردہ کرنا ضروری نہیں
سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال:
بہن نے سوال کیا ہے کہ کتاب و سنت کی روشنی میں میری راہنمائی کریں کہ کن کن لوگوں سے مجھے پردہ کرنا ضروری نہیں ہے، تا کہ میں ان کے علاوہ دوسروں سے پردہ کروں۔
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit.Morbi adipiscing gravdio, sit amet suscipit risus ultrices eu.Fusce viverra neque at purus laoreet consequa.Vivamus vulputate posuere nisl quis consequat.
جواب ( 1 )
جواب:
بہن! عورت اپنے محرم مردوں سے پردہ نہیں کرے گی اور عورت کا محرم وہ ہوتا ہے جس سے ہمیشہ کےلیے نکاح حرام ہو، حرمت نکاح کے تین اسباب ہیں :
1۔ قرابت داری
2۔ دودھ کا رشتہ
3۔ سسرالی تعلق
1۔ نسبی محارم :
قرابت داری کی وجہ سے محارم کی تفصیل حسب ذیل ہے :
1۔ آباءو اجداد : عورتوں کے باپ، ان کے اجداد اوپر تک، ان میں دادا اور نانا سب شامل ہیں۔
2۔ بیٹے : عورتوں کے بیٹے، ان میں بیٹے، پوتے، نواسے وغیرہ۔
3۔ عورتوں کے بھائی : ان میں حقیقی بھائی، باپ کی طرف سے اور ماں کی طرف تمام بھائی شامل ہیں۔
4۔ بھانجے اور بھتیجے : ان میں بھائی کے بیٹے اور بہن کے بیٹے اور ان کی تمام نسلیں شامل ہیں۔
5۔ چچا اور ماموں : یہ دونوں بھی نسبی محارم میں شامل ہیں، انہیں والدین کا قائم مقام ہی سمجھا جاتا ہے، بعض دفعہ چچا کو بھی والد کہہ دیا جاتا ہے۔
2۔ رضاعی محارم :
اس سے وہ مراد ہیں جو رضاعت یعنی دودھ کی وجہ سے محرم بن جاتے ہیں، حدیث میں سے کہ اللہ تعالیٰ نے رضاعت سے بھی ان رشتوں کو حرام کیا ہے جنہیں نسب کی وجہ سے حرام کیا ہے ( مسند امام احمد ص 131 ج 1 ) جس طرح نسبی محرم کے سامنے عورت کو پردہ نہ کرنا جائز ہے اس طرح رضاعت کی وجہ سے محرم بننے والے شخص کے سامنے بھی اس کےلیے پردہ نہ کرنا مباح ہے یعنی عورت کے رضاعی بھائی، رضاعی والد اور رضاعی چچا سے پردہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے رضاعی چچا، افلح، آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے انہیں اجازت نہ دی بلکہ ان سے پردہ کر لیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے پردہ نہ کرو اس لئے کہ رضاعت سے بھی وہی حرمت ثابت ہوتی ہے جو نسب کی وجہ سے ثابت ہوتی ہے۔ ( صحیح مسلم، الرضاع : 1445)
اس حدیث کے مطابق عورت کے رضاعی محارم بھی نسبی محارم کی طرح ہیں لہٰذا رضاعی محارم سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
3۔ سسرالی محارم :
عورت کے سسرالی محارم سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جن سے شادی کی وجہ سے ابدی طور پر نکاح حرام ہو جاتا ہے جیسا کہ سسر اور داماد وغیرہ۔ والد کی بیوی کےلیے محرم مصاھرت وہ بیٹا ہو گا جو اس کی دوسری بیوی سے ہو، سورۃ النور کی آیت 31 میں اللہ تعالیٰ نے سسر اور خاوند
کے بیٹوں کو شادی کی وجہ سے محرم قرار دیا ہے اور انہیں باپوں اور بیٹوں کے ساتھ ذکر کیا ہے اور انہیں پردہ نہ ہونے کے حکم میں برابر قرار دیا ہے۔
مذکورہ محرم رشتہ داروں کے علاوہ جتنے بھی رشتہ دار ہیں ان سے عورت کو پردہ کرنا چاہیے خواہ وہ چچا، پھوپھی، خالہ اور ماموں کے بیٹے ہی کیوں نہ ہوں، اسی طرح خاوند کے چچا اور ماموں سے بھی بیوی کو پردہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ اس کے خاوند کے چچا یا ماموں ہیں اس کے نہیں ہیں۔
خلاصہ کلام یہ نکلا کہ شوہر، باپ، دادا، پردادا، بیٹا، پوتا، پڑپوتا، نواسہ، پڑنواسہ۔ چچا، بھائی، بھتیجا، بھانجا، ماموں، نانا، پڑنانا، سسر، داماد، شوہر کی اولاد، رضاعی باپ، رضاعی بیٹا، رضاعی بھائی، رضاعی چچا اور رضاعی ماموں وغیرہ سے پردہ نہیں۔ لیکن چچازاد، پھوپھی زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، دیور، جیٹھ، نندوئی، بہنوئی، پھوپھا، خالو، شوہر کا بھتیجا، شوہر کا بھانجا، شوہر کا چچا شوہر کاماموں، شوہر کاپھوپھا، شوہر کا خالو، ان سب رشتہ داروں سے اجنبیوں کی طرح پردہ ہے۔
واللہ اعلم بالصواب