اعتکاف کے ضروری مسائل واحکام

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ اعتکاف کے ضروری مسائل اور احکام بتائیں

433 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! اعتکاف کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ ہر طرف سے یکسو ہوکر اور سب سے منقطع ہوکر بس اللہ تعالی سے لو لگا کے اس کے درپے یعنی مسجد کے کسی کونے میں پڑجائے، سب سے الگ تنہائی میں اس کی عبادت اور اس کے ذکر وفکر میں مشغول رہے اس کو دھیان میں رکھے، اس کی تسبیح و تہلیل وتقدیس میں مشغول رہے، اس کے حضور توبہ واستغفار کرے، اپنے گناہوں اور کوتاہیوں پر روتے، اس کی رضا اور قرب چاہے اور اس حال میں اس کے دن گزریں اور اس کی راتیں بسر ہوں۔

    اعتکاف کی شرطیں :
    1۔ مسلمان ہو، کافر ومشرک کا اعتکاف صحیح نہیں ہے۔
    2۔ عاقل ہو، مجنون و پاگل کا اعتکاف صحیح نہیں ہے۔
    3۔ نیت کی جائے، بغیر نیت کے اعتکاف صحیح نہ ہوگا۔
    4۔ تمیز ہو، غیر ممیز بچوں کا اعتکاف صحیح نہیں ہے۔
    5۔ مسجد میں ہو، مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ اعتکاف صحیح نہ ہوگا ۔ یہ حکم مرد وعورت دونوں کے لئے ہے۔
    6۔ طہارت ۔ حیض ونفاس اور جنابت کی حالت میں اعتکاف صحیح نہ ہوگا۔
    7۔ شوہر کی اجازت۔ بغیر شوہر کی اجازت کے اعتکاف صحیح نہ ہوگا۔
    8۔ روزہ ۔ بہت سے علماء کے نزدیک بغیر روزہ کے اعتکاف صحیح نہ ہوگا۔

    اعتکاف کا وقت:

    اعتکاف کے لئے ضروری ہے کہ جس دن کا اعتکاف کرنا چاہتا ہے اس دن کی رات آنے سے قبل مسجد میں داخل ہوجائے مثلا اگر رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرنا چاہتا ہے تو بیسویں رمضان کا سورج غروب ہونے سے قبل مسجد میں داخل ہوجائے، البتہ اپنے معتکف یعنی جائے اقامت میں اکیسویں کی صبح کو داخل ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول رہا ہے۔

    عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ صَلَّى الْفَجْرَ، ثُمَّ دَخَلَ مُعْتَكَفَهُ۔ (مسلم:2785)
    ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو صبح کی نماز پڑھ کر اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو جاتے۔

    اعتکاف سے نکلنے کا وقت:

    اعتکاف سے باہرآنے کا ایک وقت جواز کا اور دوسرا استحباب کا، جواز کا وقت یہ ہے کہ مثال کے طور پر اگر رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کیا ہے تو شوال کا چاند نکلتے ہی اپنا اعتکاف ختم کردے اور گھر واپس آجائے کیونکہ شوال کا چاند دکھائی دیتے ہی رمضان کا مہینہ ختم ہوجاتا ہے، اور مستحب وقت یہ ہے کہ عید کی صبح اپنی جائے اعتکاف سے باہر آئے او ر سیدھے عیدگاہ جائے ، بعض صحابہ و تابعین کا عمل یہی رہا ہے۔ اور ایک حدیث میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا اور جب اکیسویں کی صبح ہوئی تو اپنے اعتکاف سے باہر آئے فرمایا:

    عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَعْتَكِفُ فِي الْعَشْرِ الْأَوْسَطِ مِنْ رَمَضَانَ فَاعْتَكَفَ عَامًا حَتَّى إِذَا كَانَ لَيْلَةَ إِحْدَى وَعِشْرِينَ وَهِيَ اللَّيْلَةُ الَّتِي يَخْرُجُ مِنْ صَبِيحَتِهَا مِنْ اعْتِكَافِهِ قَالَ مَنْ كَانَ اعْتَكَفَ مَعِي فَلْيَعْتَكِفْ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ۔ (بخاری:2027)
    ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ ایک سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی دنوں میں اعتکاف کیا اور جب اکیسویں تاریخ کی رات آئی۔ یہ وہ رات ہے جس کی صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف سے باہر آجاتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ اب آخری عشرے میں بھی اعتکاف کرے۔

    اعتکاف کی مسجد:

    اعتکاف ہر اس مسجد میں کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس میں جماعت کا اہتمام ہوتا ہو، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ

    السُّنَّةُ عَلَى الْمُعْتَكِفِ أَنْ لَا يَعُودَ مَرِيضًا وَلَا يَشْهَدَ جَنَازَةً، وَلَا يَمَسَّ امْرَأَةً، وَلَا يُبَاشِرَهَا، وَلَا يَخْرُجَ لِحَاجَةٍ، إِلَّا لِمَا لَا بُدَّ مِنْهُ، وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ، وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا فِي مَسْجِدٍ جَامِعٍ۔ (ابوداؤد:2473)
    ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ معتکف کے لیے سنت یہ ہے کہ مریض کی عیادت کو نہ جائے، جنازے میں شریک نہ ہو ، عورت سے مس نہ کرے اور نہ اس سے مباشرت ( صحبت ) کرے اور کسی انتہائی ضروری کام کے بغیر مسجد سے نہ نکلے ۔ اور روزے کے بغیر اعتکاف نہیں اور مسجد جامع کے علاوہ کہیں اعتکاف نہیں ۔

    اعتکاف کے منافی کا م :
    1۔ ضرورت کے بغیر مسجد سے باہر نکلنا ۔
    2۔ عورت سے صحبت کرنا ۔
    3۔ قصدا منی خارج کرنا۔

    نوٹ:
    ان تمام امور سے اعتکاف باطل ہوجائے گا ، اسی طرح عورت کو حیض ونفاس کا خون آجائے تو اعتکاف باطل ہوجائے گا ، نیز اسلام سے ارتداد سے بھی اعتکاف باطل ہوجاتا ہے ، اور اگر کوئی شخص اعتکاف کی نیت توڑدے یہ بھی اعتکاف کے بطلان کا موجب ہے ۔

    4۔ ہر وہ کام جو شرع کی نظر میں منع ہے وہ اعتکاف کے بھی منافی ہے جیسے جھوٹ ، غیبت وغیرہ ۔
    5۔ ہر وہ کام جو عبادت کے منافی ہے جیسے خرید وفروخت میں مشغولیت بلاوجہ کی گپ شپ یہ بھی حالت اعتکاف کے منافی ہے ان امور سے اعتکاف باطل تو نہیں ہوتا البتہ اعتکاف کا مقصد فوت ہوجاتا ہے ۔
    6۔ بعض وہ عبادتیں جو فرض عین نہیں ہیں جیسے مریض کی زیارت ، نماز جنازہ اور دفن وغیرہ کے لئے بھی نکلنا جائز نہیں ہے البۃ راسۃ چلتے کسی مریض کی خیریت پوچھ لینا جائز ہے۔

    اعتکاف کی حالت میں جائز کام :

    1۔ مسجد میں کھا نا پینا ۔
    2۔ اچھے کپڑے پہنا اور خوشبو لگانا ۔
    3۔ ناخن تراشنا اور حجامت بنوانا ۔
    4۔ جمعہ کے لے جانا بلکہ جمعہ کے لئے جاناواجب ہے ۔
    5۔ اگر جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھی جارہی ہے تو اس میں شریک ہونا ۔
    6۔ کسی مریض کا گھر مسجد سے لگ کر ہے تو مسجد میں رہ کر بیمار پرسی کرنا ۔
    7۔ بالوں پر تیل کنگھی کرنا ، بلکہ عورت بھی اپنے شوہر کے بالوں پر کنگھی کرسکتی ہے خواہ اس کے لئے اعتکاف کرنے والے کو اپنا سرباہر کرنا پڑے ۔
    8۔ اپنے اہل خانہ سے بات کرنا اور بعض گھریلو مسائل پر گفتگو کرنا ۔
    9۔ بغیر شہوت کے اپنی بیوی کو چھونا ۔
    10۔ خرید و فروخت سے متعلق بعض ضروری ہدایات دینا ۔
    11۔ ملاقات کےلیے آنے والوں سے خیر خیریت پوچھنا ، البتہ دیر تک گپ شپ میں مشغول ہونا مناسب نہیں ہے ۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں