کیا میزان بینک والے ربا سے پاک بزنس کرتے ہیں
سوال
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال:
بہن نے سوال کیا ہے کہ بینک میں رقم رکھوانا اور پھر اس پر پرافٹ لینا گناہ ہے، لیکن میزان بینک والے کہتے ہیں کہ ہم ربا سے پاک بزنس کرتے ہیں، فتوے دیکھاتے ہیں اور کزن نے کہا کہ جب فتویٰ آجائے تو پھر وہاں اعتماد کرنا چاہیے۔ اس بارے رہنمائی فرمائیں
جواب ( 1 )
جواب:
بہن! بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ اس وقت پاکستان میں کوئی ایک بینک بھی ایسا نہیں جو اسلامی بنیادوں پر کام کر رہا ہو۔ سب نے دھوکے اور فریب سے سودی معاملات کو ہی شرعی نام دے لئے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے شراب کی بوتل پر دودھ لکھ لیا جائے۔ اور جو بینک اسلامی ہونے کے دعویدار ہیں، وہ لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں، حکومت کے ساتھ ان کے معاملات بھی سودی ہی طے ہوتے ہیں۔ باقی جہاں تک فتوے کی بات ہے تو آپ کے کزن کا اشارہ اس طرف ہوگا کیونکہ مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب نے میزان بینک کے اسلامی ہونے کا فتویٰ دیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب کے سب بینک غیر شرعی اور سودی کاروبار کرتے ہیں۔ اس لیے کسی بھی بینک میں کسی بھی قسم کے پراجیکٹ میں انویسٹ کرنا درست نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب