قے سے ٹوٹنے والے روزہ کی صرف قضا یا فدیہ بھی

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ جو روزہ قے کرنے کی وجہ سے ٹوٹ جائے، تو کیا اس کی صرف قضا دینا ہوگی یا فدیہ بھی دینا ہوگا؟

357 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! جو جان بوجھ کر قے کرے، اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور جان بوجھ کر روزہ توڑنے کے حوالے سے علماء کے ہاں دو باتیں ہیں

    1۔ جس نے جان بوجھ کر روزہ توڑا وہ صرف قضا ہی دے گا، اور روزہ توڑنے پرمعافی مانگے گا۔ کفارہ اس کے ذمہ نہیں ہے۔ بلکہ کفارہ صرف اس شخص کے ذمہ ہے جس نے روزہ کی حالت میں بیوی سے مباشرت کرلی۔
    2۔ جس نے جان بوجھ کر روزہ توڑا، وہ قضا بھی دے گا، اور معافی کے ساتھ سزا کے طورپرکفارہ بھی دے گا۔ اور یہ کفارہ جرمانہ کے طور پر ہوگا۔

    احتیاط کا پہلو یہی ہے کہ جو جان بوجھ کر روزہ توڑے، تو اسے قضاء میں روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ جرمانہ کے طور پرکفارہ بھی دینا چاہیے۔اورایک روزے کا کفارہ درج ذیل تین صورتوں میں سے کسی ایک سے ادا ہو جائےگا:

    1۔ ایک غلام کو آزاد کیا جائے ۔
    2۔ مسلسل دو ماہ کے روزے رکھے جائیں۔
    3۔ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے۔

    دلیل اس کی یہ ہے کہ

    أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكْتُ قَالَ مَا لَكَ قَالَ وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي وَأَنَا صَائِمٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ تَجِدُ رَقَبَةً تُعْتِقُهَا قَالَ لَا قَالَ فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ قَالَ لَا فَقَالَ فَهَلْ تَجِدُ إِطْعَامَ سِتِّينَ مِسْكِينًا قَالَ لَا قَالَ فَمَكَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهَا تَمْرٌ وَالْعَرَقُ الْمِكْتَلُ قَالَ أَيْنَ السَّائِلُ فَقَالَ أَنَا قَالَ خُذْهَا فَتَصَدَّقْ بِهِ فَقَالَ الرَّجُلُ أَعَلَى أَفْقَرَ مِنِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَوَاللَّهِ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا يُرِيدُ الْحَرَّتَيْنِ أَهْلُ بَيْتٍ أَفْقَرُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ ثُمَّ قَالَ أَطْعِمْهُ أَهْلَكَ۔ (بخاری:1936)
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یہ بدنصیب رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ ایک غلام آزاد کرسکو؟ اس نے کہا کہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دریافت فرمایا کیا تم پے در پے دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے اندر اتنی طاقت ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکو؟ اب بھی اس کا جواب نفی میں تھا۔ راوی نے بیان کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک تھیلا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں ” عرق زنبیل کو کہتے ہیں “ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے لے جا اور اپنی طرف سے ( محتاجوں کو ) کھلادے، اس شخص نے کہا میں اپنے سے بھی زیادہ محتاج کو حالانکہ دو میدانوں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں آپ نے فرمایا کہ پھر جا اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔

    استدلال:

    استدلال اس حدیث سے اس طرح کیا گیا ہے کہ جماع کرنے سے روزہ ٹوٹا، اور روزہ ٹوٹنے پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تین باتیں کہیں۔ لہذا اس حدیث کو عام رکھ کر جس بھی طرح جان بوجھ کر روزہ توڑا جائے گا، قضاء کے ساتھ یہی کفارہ بھی ادا کرنا ہوگا۔ جماع کے ساتھ روزہ توڑنے پر اس کفارہ کو مقید کردینا درست نہیں۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں