رات 12 بجے کے بعد عشاء کی نماز پڑھنا

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ کیا رات 12 بجے کے بعد عشاء کی نماز پڑھی جاسکتی ہے؟ اور کیا وہ قضا ہوگی یا ادا؟

389 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن!عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک ہے۔ اور افضل وقت رات کا پہلا تیسرا پہر ہے۔ جیسا کہ اس کی دلیل یہ حدیث ہے

    فَصَلَّى الظُّهْرَ فِي الأولَى مِنْهُمَا حِينَ كَانَ الْفَيْئُ مِثْلَ الشِّرَاكِ، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ كَانَ كُلُّ شَيْئٍ مِثْلَ ظِلِّهِ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ حِينَ وَجَبَتِ الشَّمْسُ، وَأَفْطَرَ الصَّائِمُ، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَائَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ صَلَّى الْفَجْرَ حِينَ بَرَقَ الْفَجْرُ، وَحَرُمَ الطَّعَامُ عَلَى الصَّائِمِ، وَصَلَّى الْمَرَّةَ الثَّانِيَةَ الظُّهْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّ كُلِّ شَيْئٍ مِثْلَهُ لِوَقْتِ الْعَصْرِ بِالأَمْسِ، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ حِينَ كَانَ ظِلُّ كُلِّ شَيْئٍ مِثْلَيْهِ، ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ لِوَقْتِهِ الأَوَّلِ، ثُمَّ صَلَّى الْعِشَائَ الآخِرَةَ حِينَ ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ صَلَّى الصُّبْحَ حِينَ أَسْفَرَتِ الأَرْضُ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيَّ جِبْرِيلُ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ! هَذَا وَقْتُ الأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِكَ، وَالْوَقْتُ فِيمَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْوَقْتَيْنِ۔ (ترمذی:149)
    پہلی بارانہوں نے ظہر اس وقت پڑھی جب سورج ڈھل گیا اور سایہ جوتے کے تسمہ کے برابرہوگیا، پھرعصراس وقت پڑھی جب ہرچیز کا سایہ اس کے ایک مثل ہوگیا (اس سے معلوم ہوا کہ ظہرکا وقت ایک مثل تک رہتا ہے اس کے بعد عصرکاوقت شروع ہوجاتا ہے۔ جمہورکا یہی مسلک ہے
    اورعصرکے وقت سے متعلق امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مشہورقول دومثل کا ہے۔ کہ جب سایہ دو مثل ہوجائے تو عصر کی نماز پڑھی جائے، لیکن یہ کسی صحیح مرفوع حدیث سے ثابت نہیں)، پھر مغرب اس وقت پڑھی جب سورج ڈوب گیا اورصائم نے افطار کرلیا، پھر عشاء اس وقت پڑھی جب
    شفق(اس سے مراد وہ سرخی ہے جو سورج ڈوب جانے کے بعد مغرب (پچھم) میں باقی رہتی ہے) غائب ہوگئی، پھرصلاۃ فجر اس وقت پڑھی جب فجرروشن ہوگئی اورصائم پرکھانا پینا حرام ہوگیا۔ دوسری بارظہرکل کی عصرکے وقت پڑھی جب ہرچیز کا سایہ اس کے مثل ہوگیا، پھرعصراس وقت پڑھی جب ہرچیز کا سایہ اس کے دومثل ہوگیا، پھر مغرب اس کے اول وقت ہی میں پڑھی (جیسے پہلی بارمیں پڑھی تھی) پھر عشاء اس وقت پڑھی جب ایک تہائی رات گزرگئی، پھرفجراس وقت پڑھی جب اجالا ہوگیا، پھرجبرائیل(علیہ السلام) نے میری طرف متوجہ ہوکر کہا:اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)! یہی آپ سے پہلے کے انبیاء کے اوقات صلاۃ تھے، آپ کی صلاتوں کے اوقات بھی انہی دونوں وقتوں کے درمیان ہیں۔

    اگر کوئی بہن نماز عشاء کے افضل اور پھر آخری وقت تک بھی سوئی رہی، یا پھر نماز پڑھنا ہی بھول گی۔ تو جب وہ جاگے یا جب اسے یاد آئے، تو نماز پڑھ لے۔ کیونکہ یہی اس کی نماز کا ٹائم ہے۔ جیساکہ حدیث میں ہے

    عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَفَلَ مِنْ غَزْوَةِ خَيْبَرَ فَسَارَ لَيْلَةً حَتَّى إِذَا أَدْرَكَنَا الْكَرَى عَرَّسَ، وَقَال لِبِلَالٍ: «اكْلَأْ لَنَا اللَّيْلَ» قَالَ: فَغَلَبَتْ بِلَالًا عَيْنَاهُ، وَهُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَى رَاحِلَتِهِ فَلَمْ يَسْتَيْقِظِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا بِلَالٌ وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّى إِذَا ضَرَبَتْهُمُ الشَّمْسُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلَهُمُ اسْتِيقَاظًا، فَفَزِعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «يَا بِلَالُ»، فَقَالَ: أَخَذَ بِنَفْسِي الَّذِي أَخَذَ بِنَفْسِكَ ِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَاقْتَادُوا رَوَاحِلَهُمْ شَيْئًا ثُمَّ تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ لَهُمُ الصَّلَاةَ وَصَلَّى بِهِمُ الصُّبْحَ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ، قَالَ: ” مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ: «أَقِمِ الصَّلَاةَ لِلذِّكْرَى»۔ (ابوداؤد:435)
    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ خیبر سے واپس لوٹ رہے تھے تو ایک رات ، رات بھر چلتے رہے ، حتیٰ کہ جب ہم کو نیند آنے لگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام کے لیے اتر گئے اور بلال سے فرمایا ” آج رات ہمارا پہرہ دینا ۔ “ بیان
    کرتے ہیں کہ پھر بلال کی آنکھیں بھی ان پر غالب آ گئیں ( یعنی سو گئے ) اور وہ اپنے اونٹ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے ، چنانچہ نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جاگے ، نہ بلال ہی اور نہ کوئی اور صحابی ۔ حتیٰ کہ جب انہیں دھوپ لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے جاگنے والے تھے آپ گھبرائے اور فرمایا ” اے بلال ! انہوں نے کہا : اے اللہ کے رسول ، مجھے بھی اسی چیز نے پکڑ لیا جس نے آپ کو پکڑا ۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان ! پھر ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم ) وہاں سے چل دیئے ( اور کچھ دور جا کر اترے ) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور بلال کو حکم دیا تو انہوں نے نماز کے لیے اقامت کہی اور آپ نے انہیں فجر کی نماز پڑھائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا ” جو شخص نماز کو بھول جائے تو جب یاد آئے اسی وقت پڑھ لیا کرے ۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ «أقم الصلاة للذكرى» نماز قائم کرو جب یاد آئے ۔ “

    لیکن جان بوجھ کر شاء کی نماز کو اس کے آخری وقت سے بھی لیٹ کرجانا، یہ درست نہیں۔ بلکہ ایسا کرنے والی بہن گناہگار ہوگی۔ لیکن جہاں تک آپ کا یہ سوال ہے کہ یہ کیا وہ ادا ہوجائے گی؟ تو اس حوالے سے عرض ہے کہ ایک نماز کا وقت دوسری نماز کے وقت تک ہے۔ لہٰذا اگر وہ پڑھ لیتی ہے تو نماز اداء ہوجائے گی، لیکن جان بوجھ کر تاخیر کرنے والی غلطی پرگناہگار ہوگی۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں