روزوں کے کفارے کا مسئلہ

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ اگر کوئی خاتون طبیعت کی خرابی کی وجہ سے رمضان کے روزے نہیں رکھ پاتی۔لیکن طبیعت درست ہونے کے بعد بھی وہ خود روزوں کی قضائی نہیں دیتی بلکہ اس خاتون کی بیٹی یا پوتی قضائی دے دیتی ہے تو شرعی حوالے سے اس مسئلہ کی کیا حیثیت ہے؟

309 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! ایسا مریض جس پر روزے شاق ہوں اسے روزہ نہ رکھنا مشروع ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اسے شفا دے اس کی قضا دے دے جو اس کے ذمہ ہیں ، چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں :
    وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ (البقرۃ:185)
    ’’اور جو تم میں سے مریض ہو یا سفر میں ہو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کر لے‘‘۔
    اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ مریضہ کے صحت یاب ہونے یا مسافرہ کے اپنے مقام پر پہنچنے کے بعد روزوں کی قضائی انہی کے ذمہ ہوگی۔ یعنی وہ خود اس کی قضادیں گی۔

    لیکن اگروہ خاتون اتنی کمزور ہیں کہ روزوں کی قضا کرنے سے معذور ہے، اور یہ بھی معلوم ہے کہ اب وہ بہت جلد صحت یاب بھی نہیں ہوسکتیں۔یا بیماری ایسی ہے کہ جس کے بعد صحت یاب ہونے کی کوئی علامت نظر نہیں آرہی تو پھر یہ شرعی عذر ہے ۔لہذا ایسی خاتون کو چاہیے کہ وہ اپنے روزوں کا کفارہ ادا کرلے۔
    لیکن کسی خاتون کے روزوں کی قضائی اس کی جگہ پر کوئی اور دے؟ ایسی بات کسی بھی شرعی دلیل سے ثابت نہیں۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں