ناخن بڑے ہوں تو کیا نماز نہیں ہوتی

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ اگر ناخن بڑے ہوں تو کیا نماز نہیں ہوتی؟

676 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    ہمارا دین اسلام، دین فطرت ہے کیونکہ یہ انسان کے فطرتی تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ مونچھیں کترانے، داڑھی بڑھانے، مسواک کرنے، وضو کرتے وقت ناک میں پانی چڑھانے، کلی کرنے، ختنے کرانے، ناخن تراشنے، زیرناف بال مونڈنے، بغلوں کی صفائی کرنے، استنجاء کرنے اور بدن کی مختلف ہڈیوں کے جوڑ دھونے کو اسلام نے امور فطرت میں شمار کیا ہے۔ گویا ان کی صفائی کا اہتمام انسانی طبع کا تقاضا ہے اور ان میں سستی کا مظاہرہ گندگی پھیلانے کا باعث ہے۔ ان امور فطرت مین ناخن کاٹنا بھی شامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناخن نجاست اور میل کچیل کو جمع رکھنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، اس لئے انہیں تراشنے اور صاف رکھنے کا حکم ہے۔ ناخن بڑھے ہوئے ہوں تو دیکھنے میں بھی برے لگتے ہیں۔ لمبے ناخن رکھنا، انسانی فطرت سے بغاوت اور انبیاء علیہم السلام کی سنت سے روگردانی کرنا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی انسان غیر ضروری بالوں کی صفائی کرنا چھوڑ دے، ہاتھ منہ بھی نہ دھوئے۔ ناخن بڑھانا انسانی شیوہ نہیں بلکہ حیوانی خصلت ہے، اس لئے شریعت نے اس کی اجازت نہیں دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم گرامی ہے:

    أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ قَالَ سَمِعْتُ مَعْمَرًا عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسٌ مِنْ الْفِطْرَةِ قَصُّ الشَّارِبِ وَنَتْفُ الْإِبْطِ وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ وَالِاسْتِحْدَادُ وَالْخِتَانُ۔(سنن نسائی:10)
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پانچ چیزیں فطری ہیں، مونچھوں کو کاٹنا، بغلوں کے بال اکھیڑنا، ناخن تراشنا، زیر ناف کے بال صاف کرنا اور ختنہ کرانا۔‘‘

    اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا ہے، حیوانات کے ساتھ اس کی مشابہت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ بڑے ناخن کسی کو یا اپنے آپ کو زخمی کر سکتے ہیں۔ اس لئے فطرت سلیمہ کا تقاضا ہے کہ انہیں بڑھایا نہ جائے بلکہ زائد ناخن تراش دئیے جائیں۔ شریعت نے ان فطری امور کےلیے زیادہ سے زیادہ چالیس دن مقرر فرمائے ہیں۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان فطری امور کی صفائی کےلیے یہ مدت مقرر کی ہے کہ ہم چالیس دن سے زیادہ نہ گزرنے دیں۔

    حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، كِلَاهُمَا عَنْ جَعْفَرٍ، قَالَ: يَحْيَى، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: – قَالَ أَنَسٌ – «وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفِ الْإِبِطِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، أَنْ لَا نَتْرُكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً۔(مسلم:599)
    حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمارے لیے مونچھیں کترنے ، ناخن تراشنے، بغل کے بال اکھیڑنے اور زیر ناف بال مونڈنے کے لیے وقت مقرر کر دیا گیا کہ ہم ان کو چالیس دن سےزیادہ نہ چھوڑیں۔

    بدذوقی کی انتہا یہ ہے کہ آج کل بازار سے مصنوعی ناخن لے کر ان پیدائشی ناخنوں کے ساتھ لگا دئیے جاتے ہیں تا کہ دیکھنے میں زیادہ لمبے نظر آئیں۔ بہرحال شریعت نے انہیں کاٹنے کا حکم دیا ہے، اگر صفائی کا خیال رکھا جائے تو لمبے ناخنوں کی موجودگی میں نماز تو ہو جائے گی لیکن ناخن بڑھانے کا گناہ اپنی جگہ پر قائم رہے گا جو ایک مسلمان کے شایان شان نہیں۔

    واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں