نماز وتر کی ادائیگی کا مسنون طریقہ

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال:

بہن نے سوال کیا ہے کہ ہم تین رکعات وتر پڑھتے ہیں تو پہلے دو رکعات پڑھ کر سلام پھیرلیتے ہیں اور پھر ایک رکعات پڑھتے ہیں تو کیا یہ درست ہے؟ نماز وتر پڑھنے کا درست طریقہ بتائیں

594 مناظر 0

جواب ( 1 )

  1. جواب:

    بہن! سب سے پہلے تو یہ جان لینا چاہیے کہ وتر کتنی رکعات پڑھی جارہی ہے تین یا پانچ یا سات یا نو؟ چاروں تعداد کو اس طرح پڑھنا ہے۔

    ٭ تین وتر

    تین وتر پڑھنے کے لئے دو رکعات پڑھ کر سلام پھیرا جائے اور پھر ایک رکعت الگ سے پڑھی جائے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے

    حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، وعبد الله بن دينار، عن ابن عمر، أن رجلا، سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الليل فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏”‏ صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة، توتر له ما قد صلى‏۔ (بخاری990)
    ہم سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے نافع اور عبد اللہ ابن دینار سے خبر دی اور انہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات میں نماز کے متعلق معلوم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کی نمازدو دو رکعت ہے پھر جب کوئی صبح ہو جانے سے ڈرے تو ایک رکعت پڑھ لے، وہ اس کی ساری نماز کو طاق بنا دے گی۔

    اسی طرح ابن عمررضی اللہ عنہ کا عمل بھی ہے کہ

    وَعَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يُسَلِّمُ بَيْنَ الرَّكْعَةِ وَالرَّكْعَتَيْنِ فِي الْوِتْرِ حَتَّى يَأْمُرَ بِبَعْضِ حَاجَتِهِ۔(بخاری:991)
    نافع سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وتر کی جب تین رکعتیں پڑھتے تو دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرتے یہاں تک کہ ضرورت سے بات بھی کرتے۔

    اسی طرح بخاری کی ایک اور حدیث میں ہے

    حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ كُرَيْبٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ وَهِيَ خَالَتُهُ فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ وِسَادَةٍ وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا فَنَامَ حَتَّى انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَرِيبًا مِنْهُ فَاسْتَيْقَظَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ آلِ عِمْرَانَ ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ فَتَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي فَصَنَعْتُ مِثْلَهُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبهِ فَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي وَأَخَذَ بِأُذُنِي يَفْتِلُهَا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ أَوْتَرَ ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ۔ (بخاری:992)
    ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے مخرمہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے کریب نے اور انہیں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ آپ ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سوئے ( آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ) میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی لمبائی میں لیٹیں، آپ سو گئے جب آدھی رات گزر گئی یا اس کے لگ بھگ تو آپ بیدار ہوئے نیند کے اثر کو چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر آپ نے دور کیا۔ اس کے بعد آل عمران کی دس آیتیں پڑھیں۔ پھر ایک پرانی مشک پانی کی بھری ہوئی لٹک رہی تھی۔ آپ اس کے پاس گئے اور اچھی طرح وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ آپ پیار سے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر رکھ کر اور میرا کان پکڑ کر اسے ملنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت سب بارہ رکعتیں پھر ایک رکعت وتر پڑھ کر آپ لیٹ گئے، یہاں تک کہ مؤذن صبح صادق کی اطلاع دینے آیا تو آپ نے پھر کھڑے ہو کر دو رکعت سنت نماز پڑھی۔ پھر باہر تشریف لائے اور صبح کی نماز پڑھائی۔

    ان سب دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ جب تین رکعات وتر پڑھی جارہی ہو تو دو رکعات پڑھ کر سلام پھیرا جائے، اور پھر ایک رکعت پڑھی جائے۔

    نوٹ:
    باقی جو حضرات تین وترایک ساتھ پڑھتے ہیں، ان سے دلیل طلب کریں کہ کونسی صحیح حدیث میں تین وتر اکٹھے پڑھنا آیا ہے؟ کیونکہ جن روایات میں ایک سلام سے تین رکعتوں کا ذکر آیا ہے وہ سب بلحاظ سند ضعیف ہیں۔ تاہم بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے تین وتر اکٹھے پڑھنا ثابت ہے۔ اس لیے اگر آپ نے تین وتر ایک ساتھ پڑھنے بھی ہیں تو پھر درمیان میں تشہد نہیں کیا جائے گا۔

    ٭پانچ وتر

    پانچ وتر کا طریقہ یہ ہے کہ صرف آخری رکعت میں سلام پھیرا جائے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

    وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ح و حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً يُوتِرُ مِنْ ذَلِكَ بِخَمْسٍ لَا يَجْلِسُ فِي شَيْءٍ إِلَّا فِي آخِرِهَاِ۔ (مسلم:1720)
    عبداللہ بن نمیر نے ہمیں حدیث بیان کی اور کہا: ہمیں اپنے ہشام نے اپنے والد(عروہ) سے حدیث سنائی اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے، ان میں سے پانچ رکعتوں کے ذریعے وتر (ادا) کرتے تھے، ان میں آخری رکعت کے علاوہ کسی میں بھی تشہد کے لئے نہ بیٹھتے تھے۔

    لہٰذا جب آپ نے پانچ رکعات وتر پڑھنے ہیں تو پھر پانچوں رکعات ایک ہی سلام کے ساتھ پڑھنی ہیں۔

    ٭سات وتر

    سات وتر کے لئے بھی ساتویں رکعت پر سلام پھیرا جائے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے

    حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قَيْسٍ الْأَسَدِيُّ عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَمَا أَمْسَى، فَقَالَ: أَصَلَّى الْغُلَامُ؟<، قَالُوا: نَعَمْ، فَاضْطَجَعَ حَتَّى إِذَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ,قَامَ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ صَلَّى سَبْعًا، أَوْ خَمْسًا، أَوْتَرَ بِهِنَّ، لَمْ يُسَلِّمْ إِلَّا فِي آخِرِهِنَّ۔ (ابوداؤد:1356) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رات گزاری ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے جبکہ رات ہو چکی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ” کیا لڑکے نے نماز پڑھ لی ہے ؟ “ انہوں نے کہا : ہاں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی لیٹ گئے حتیٰ کہ جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا جو اللہ نے چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور وضو کیا ۔ پھر آپ نے سات یا پانچ رکعات پڑھیں اور انہیں وتر بنایا ۔ اور ان رکعات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( درمیان میں ) کوئی تشہد نہیں کیا۔اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِسَبْعٍ أَوْ بِخَمْسٍ لَا يَفْصِلُ بَيْنَهُنَّ بِتَسْلِيمٍ وَلَا كَلَامٍ۔(ابن ماجہ:1192) سیدنا ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ یا پانچ رکعت وتر پڑھتے تھے ان کے درمیان سلام یا کلام کے ساتھ تفریق نہیں کرتے تھے( ایک ہی سلام سے پرھتے تھے)۔لہٰذا معلوم ہوا کہ جب سات وتر پڑھنے ہیں تو بھی ایک سلام کے ساتھ پڑھنے ہیں۔٭نو وترنو وتر کے لئے آٹھویں رکعت پڑھ کر بیٹھا جائے، سلام نہ پھیرا جائے بلکہ تشہد وغیرہ پڑھ کر نویں رکعات کےلیے اٹھ کر اسے مکمل کیا جائے، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں فرماتی ہیں:يُصَلِّي تِسْعَ رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهَا إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ۔(مسلم:1739) نو رکعتیں پڑھتے، ان میں آپ آٹھویں کے علاوہ کسی رکعت میں نہ بیٹھتے۔خلاصہ کلامجب تین وتر پڑھنے ہیں تو دو رکعات پڑھ کر سلام پھیرا جائے، پھر تیسری رکعت پڑھی جائے، لیکن اگر تین رکعات ایک سلام کے ساتھ پڑھنی بھی ہیں تو پھر دو رکعات کے بعد تشہد نہ کیا جائے۔ جب پانچ اور ساتھ رکعات وتر پڑھنی ہوں تو پھر ایک سلام کے ساتھ پڑھیں لیکن جب نو رکعات وتر پڑھنے ہوں تو پھر آٹھویں رکعت پڑھ کر تشہد کےلیے بیٹھا جائے، اور سلام پھیرے بغیر نویں رکعات پڑھی جائے۔واللہ اعلم بالصواب

ایک جواب چھوڑیں